Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر8

اگلی صبح سب سے پہلے اس نے عانیہ کی کلاس لی تھی جو گئی تو اپنی ماما کی بات سُننے تھی مگر واپس ہی نہیں آئی تھی اور آگے سے اس نے بتایا تھا کہ وہ آئی تھی مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا اور وہ واپس چلی گئی جس پر ساوی سر جھٹک کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔ آج عانیہ لوگ واپس جا ریے تھے اور آج ساوی بھی گھر پہ ہی تھی اس کے ماموں لوگ اسی شہر میں رہتے تھے اس لیے جب چاہے ان کے ہاں آجاتے تھے ۔۔۔۔ساوی باہر ڈائیننگ پہ جانے سے گھبرا رہی تھی اگر کسی نے اس کے چہرے پہ لکھی تحریر پڑھ لی تو ۔۔۔۔۔ اور درید وہ بھی تو ہو گا اس کا سامنا کیسے کرے گی ۔۔۔ زندگی میں پہلی بار وہ درید کے سامنے جانے سے گھبرا رہی تھی۔۔۔۔ اور آج سے پہلے ایسا کُچھ ہوا بھی تو نہیں تھا ان کے درمیان ۔۔۔۔۔۔ اسے درید کے سامنے جانے کا سوچ سوچ کر ہی ہول اُٹھ رہے تھے کُچھ فطری شرم و حیا آڑے آرہی تھی یہ سب سوچتے ہوئے اس کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے جو عانیہ غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔وہ اس کے پاس ہی کچن میں کھڑی تھی۔۔۔۔ ساوی کیا ہوا تمہیں تمہارا رنگ کیوں اتنا سُرخ ہو رہا ہے کہیں بخار تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھتی پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ نہیں کُچھ بھی تو نہیں ٹھیک تو ہوں میں ۔۔۔۔۔ وہ اس کے ایکدم پوچھنے پہ بوکھلا سی گئی .۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آر یو شیور؟؟؟؟ وہ سوالیہ ہوئی۔ یس آئی ایم شیور ۔۔۔۔۔۔ چلو باہر چلتے ہیں سب ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔۔ اس بار وہ اعتماد سے بولی۔۔۔ ہاں چلو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اُس کے ساتھ ہی باہر نکلی۔ وہ جب باہر آئیں تو سب ہی ان کا ویٹ کر رہے تھے ان کے آتے ہی ناشتہ شروع کیا گیا ۔۔۔ ساوی نے ایک بار بھی درید کی طرف نہیں دیکھا کہ اس میں ہمت ہی نہیں تھی اس کی طرف دیکھنے کی جبکہ درید کی نگاہیں اس پہ ایسے ٹکی ہوئیں تھیں جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو اور اس کے یہ انداز نادیہ بیگم سے چھپے نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ خود پہ اُس کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی اور بار بار پہلو بدل رہی تھی۔۔۔مگر درید کی نظریں اس پر سے نہ ہٹنی تھیں نہ ہٹیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اُس کی حالت سے محفوظ ہو رہا تھا اس نے کب دیکھے تھے اس کے شرمائے لہجائے سے انداز ۔۔۔۔ وہ اس کا یہ روپ دل کھول کے دل میں اتار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ناشتے کے بعد سب لوگ پورچ میں آگئے تھے جہاں ان اس کے ماموں کی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ جانے کے لیے تیار تھے۔۔۔عانیہ ساوی کے گلےمل رہی تھی اور وقار صاحب مراد صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔ جبکہ اشعر درید کے پاس کھڑا تھا دیکھنے میں ایسے لگ رہا تھا جیسے دو دوست کھڑے ہوں مگر حقیقت تو ان کے دل ہی جانتے تھے جو ایک دوسرے کو اپنا رقیب سمجھتے تھے ۔۔۔۔۔ جو میں نے کہا تھا اس پہ ایک بار پھر غور کر لینا شاید تمہارا فیصلہ بدل جائے۔۔۔۔حنا بیگم نادیہ بیگم کے گلے لگتی سرگوشی میں بولیں ۔ میرا فیصلہ میرے بچوں کی خوشی سے مشروط ہے جو وہ چاہیں گے وہی ہو گا میں زور زبردستی کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں جواب دیا جسے سن کے حنا بیگم کا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔۔۔۔ اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔۔ حنا بیگم نے دل مسوس کر کہا اور ساوی کو پیار کرتی گاڑی کی طرف بڑھ گئیں ان سب میں وہ درید پہ ناگوار نظر ڈالنا نہ بولیں تھیں اور درید ان کی نظروں پہ حیران پریشان رہ گیا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اسے بڑی چاہت سے ملتی تھیں پھر اب ایسا کیا ہوا ؟؟ خیر میری بلا سے۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سوچتے ہوئے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔۔۔۔ تیار رہنا اگلی بار جب ہم آئیں گے تو تمہیں دلہن بنا کے لے آئیں گے ۔۔۔۔ساوی عانیہ کے گلے لگتی شرارت سے بولی ۔۔۔ اللّٰہ کرے وہ وقت جلدی آئے۔۔۔۔۔وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔۔ آہاں اتنی جلدی ہے میری بھابھی بننے کی؟؟ . ساوی اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔ مجھے تو تمہیں بھابھی بنانے کی بھی بہت جلدی ہے۔۔۔۔ وہ اس سے الگ ہوتی معنی خیز لہجے میں بولی۔۔۔ مطلب میں کُچھ سمجھی نہیں ؟؟ وہ الجھتے ہوئے بولی۔ کُچھ نہیں جلدی پتہ لگ جائے گا پھر سارے مطلب بھی سمجھ جاؤ گی۔۔ وہ ہنوز شرارت سے بولی۔ عانیہ بیٹا آجاؤ اب۔۔۔اس سے پہلے کہ ساوی اور کُچھ پوچھتی حنا بیگم نے عانیہ کو آواز دی۔۔۔ اور عانیہ پھپھو لوگوں سے ملتی گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی فرّاٹے بھرتی نکل گئی اور یہ سب لوگ بھی واپس اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔


مراد صاحب اور نادیہ بیگم اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھے وہ آج آفس نہیں گئے تھے تو آفس کا کام گھر پر ہہ کر رہے تھے۔۔۔ نادیہ بیگم اپنی ہی سوچوں میں کھوئی ہوئیں تھیں ۔۔ کیا بات ہے آپ کن سوچوں میں کھوئی ہیں بیگم ؟ مراد صاحب نے ان کو یوں ساکت بیٹھے دیکھا تو بے ساختہ پوچھا ۔ جج جی کہیں نہیں یہیں ہوں وہ دراصل بھابھی کی باتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔ وہ ان کے آواز دینے پہ ایک دم چونک گئی۔ ایسی کون سی باتیں کر گئی ہیں وہ جو یوں کھو گئی ہیں آپ۔۔۔۔وہ سوالیہ ہوئے تو نادیہ بیگم۔نے ساری بات تفصیل سے ان کے گوش گزار دی۔۔۔ جسے سن کے ان کے ماتھے پہ بھی تفکر کی لکیر ابھر آئی ۔۔۔۔ سنیے بھابھی کو لگتا ہے کہ ہمارا فیصلہ بدل جائے گا کیوں نہ ہم درید اور ساوی کی منگنی کر دیں اس طرح یہ بات تو ختم ہو گی۔۔۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے بولیں ۔۔ ہمم میری شایان سے بات ہوئی ہے وہ جلدی آنے کی کوشش کرے گا تو اس کی شادی کے ساتھ ہی درید اور گڑیا کی منگنی کر دیں گے میری گُڑیا ابھی چھوٹی ہے اتنی جلدی شادی ٹھیک نہیں ۔۔۔وہ جواباً بولے جی ٹھیک ہے وہ آئے گا تو میں عانیہ کے بارے میں بات کروں گی اس سے گھر کی دیکھی بھالی بچی ہے مجھے تو پسند ہے آپ کیا کہتے ہیں ؟؟؟؟ انہوں نی شوہر کو اپنی پسند کے بارے میں بتایا ۔۔ ہاں ٹھیک ہے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں مگر شایان سے پوچھ لینا اگر وہ راضی ہوا تو بات آگے بڑھائیں گے۔۔۔۔ وہ رضامندی دیتے ہوئے بولے۔۔۔ جی اس سے تو پوچھ لوں گی کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی اور کو پسند کرتا ہو ۔۔۔ اور میں یہاں اس کا رشتہ طے کر دوں ۔۔۔۔۔وہ فکریہ انداز میں بولیں ۔۔۔ ہاں ہاں پوچھ لینا پہلے آتو جائے وہ۔۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولے اللّٰہ پاک خیر خیریت سے لائے اسے گھر۔۔۔ آمین ۔۔۔ آمین۔۔۔۔۔ اب ایک کپ چائے تو پلا دیں بہت دل کر رہا آپ کے ہاتھ کی چائے پینے کو ۔۔۔۔وہ مسکا لگاتے ہوئے بولے۔۔۔ ایک آپ اور ایک آپ کے مسکے۔۔۔۔۔ وہ جھینپتی ہوئی اُٹھ گئیں ۔۔۔۔۔۔ اور وہ قہقہہ لگا کے ہنس پڑے۔۔۔۔۔


وہ اس وقت بیٹھی پڑھ رہی تھی اس کے پیپرز سٹارٹ ہونے والے تھے تو وہ اسی کی تیاری میں بزی تھی جب اچانک کوئی اس کے سامنے بیڈ پر آکے بیٹھا وہ نگاہیں نہیں اُٹھا پائی وہ تو اسے اس کی خوشبو سے پہچان لیتی تھی اب کیسے ممکن تھا کہ اسے پتہ نہ لگتا کہ کون آیا ہے ۔۔۔۔۔ تم مجھے اگنور کیوں کر رہی ہو ؟؟؟؟ وہ سنجیدہ سے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔ اس الزام پہ اس نے تڑپ کر سر اُٹھایا اور اس کی طرف دیکھا جو اسی کی طرف نگاہیں جمائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔۔۔ ممم میں کیوں کروں گی اگنور۔۔۔۔۔ وہ منمنائی یہ تو تمہیں پتہ ہو نہ کہ تم مجھ معصوم کو اگنور کیں کر رہی ہو؟ وہ معصومیت سے بولا لہجے میں ہنوز شرارت تھی۔۔۔ میں اگنور تو نہیں کر رہی ۔۔۔وہ نظریں چراتی بولی۔ اچھا پھر میری طرف دیکھتی کیوں نہیں جہاں جاتا ہوں اُٹھ کر چلی جاتی ہو باتیں بھی نہیں کرتی پہلے کی طرح اپنے بڈی سے۔۔۔۔ وہ خفا خفا سا بول رہا تھا ۔۔۔ نن نہیں وہ وہ مجھے آپ سے ۔۔۔۔۔ شرم آتی ہے؟؟؟ اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی وہ اس کی بات کاٹ گیا۔۔۔ اور وہ جھکا سر مزید جھکا گئی۔۔۔ میری چڑیا میری طرف دیکھو۔۔وہ اس کا جھکا سر اُٹھا رہا تھا۔ جسے نے سر اُٹھا لیا تھا مگر نگاہیں جھکی ہوئیں تھیں ۔۔ دیکھو میں نہیں چاہتا کہ ہمارے پہلے رشتے میں کوئی فرق آئے میں چاہتا ہوں کہ تم پہلے کی طرح مجھ سے ہنسو بولو مزاق کرو مجھے اپنی چہچہاتی ہوئی چڑیا پسند ہے مجھ سے چھپتا ہوا کبوتر نہیں ۔۔۔۔۔ وہ سنجیدہ سا سمجھاتا ہوا آخر میں شرارت سے بولا ۔۔ اس کی بات سن کے اس نے جھٹ سے سر اُٹھایا اور اپنی آنکھیں گھمائیں ۔۔۔ میں کیوں چھپوں گی آپ سے میں ڈرتی تھوڑی ہوں آپ سے ۔۔۔۔ وہ تیزی سے بولی۔۔۔۔۔ آہاں نہیں ڈرتی ؟؟ وہ اس کی طرف جھکتا ہوا بولا ۔۔۔ نن نہیں۔۔۔ وہ بوکھلا کر پیچھے ہوئی سچ میں نہیں ڈرتی ؟؟ اس کی سانسیں اب ساوی کے چہرے پہ پڑ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ سرخ چہرے سے آنکھیں میچ گئی۔۔۔ در درید۔۔۔۔ وہ کپکپاتی آواز میں بولی۔۔۔ ہاں تم واقعی مجھ سے نہیں ڈرتی ۔۔۔۔۔ وہ اس کے سرخ چہرے اور اپنی شرٹ کی طرف دیکھتا گویا ہوا جسے اس نے دبوچ رکھا تھا۔۔۔۔لہجے میں معنی خیزی تھی۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کُچھ اور کہتا ساوی کا فون بج اُٹھا اور پھر بجتا ہی چلا گیا ۔۔۔۔ ماحول میں چھایا فسوں ایکدم سے ٹوٹا تھا وہ جھجھکتی ہوئی اس کی شرٹ چھوڑ کے پیچھے ہوئی۔۔۔ اور فون اُٹھایا افرحہ کی کال تھی۔۔۔ ہہہ ہیلو ساوی ساوی پلیز جلدی سے ہاسپٹل آجاو بابا بابا کی طبیعت خراب ہو گئی ہے وہ ٹھیک نییں ہیں میں یہاں نلکل اکیلی ہوں ۔۔۔۔۔ ابھی وہ کُچھ بولتی افرحہ کی روتی ہوئی آواز سن کے وہ پریشان ہو گئی۔۔۔۔۔ افی افی تم رو مت میں آرہی ہوں تم فکر مت کرو کون سے ہسپتال میں ہو تم مجھے بتاؤ ۔۔۔۔۔ وہ اسے تسلی دیتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔ اور افرحہ نے ہسپتال کا اڈریس بتاتے فون بند کر دیا ۔۔۔ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ۔۔۔۔ درید جو کہ سب خاموشی سے سُن رہا تھا فکر مندی سے بولا نن نہیں وہ افی کے بابا کی طبیعت خراب ہو گئی ہے وہ ہسپتال میں اکیلی ہے مجھے وہاں جانا ہے درید پلیز مجھے لے جائیں وہ بہت رو رہی تھی۔۔۔۔وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔ میں لے جاتا ہوں تم رو مت تم رو گی تو اسے کون سمبھالے گا تم تیار ہو جاؤ میں چچا جان کو بتا کے آتا ہوں ۔۔۔ وہ اسے کہتا باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔


درید کے ساتھ مراد صاحب بھی ہسپتال آئے تھے ان کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی افرحہ کے بابا سے اور انہیں بہت افسوس ہوا تھا ان کی طبیعت کا سُن کے ۔۔۔ ساوی کو دیکھتے ہی افرحہ اس کے گلے لگی بُری طرح روتی جا رہی تھی اس کی حالت دیکھ کے ساوی کے بھی آنسو لگاتار بہہ رہے تھے اور درید دونوں کی طرف دیکھ کے تاسف سے سر ہلا کے رہ گیا جو چپ ہونے میں نہیں آرہی تھیں۔۔۔۔۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں تھے جہاں ڈاکٹر انہیں اٹینڈ کر رہے تھے اور ابھی تک ان کی خیریت کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔۔۔۔ 2 گھنٹے ہو گئے تھے ڈاکٹرز کو اندر گئے اندر مگر ان کی کنڈیشن سٹیبل نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔ 3 گھنٹے بعد ڈاکٹرز باہر آئے تھے۔۔۔۔ ڈاکٹر انکل میرے بابا کیسے ہیں ؟؟ وہ ٹھیک ہیں نہ ؟؟؟ افرحہ بے تابی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھی۔۔ نہیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے نہ ہی ان کی کنڈیشن سٹیبل ہونے میں آرہی ہے ہم نے پوری کوشش کی مگر۔۔۔۔۔ ان کے ہاس وقت کم ہے وہ افرحہ کو یاد کر رہے ہیں ان کو بلا لیں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کی بات سن کے افرحہ کو لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب یہی افرحہ ہے اُن کی بیٹی۔۔۔ افرحہ جاو اپنے بابا سے مل لو ۔۔۔۔ درید نے ڈاکٹر کو جواب دیتے ہی افرحہ سے کہا جو ڈبڈبائی آنکھوں سے اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔ اندر داخل ہو کے اس کی نظر سامنے ہسپتال کے بستر پہ لیٹے اپنے جان سے پیارے باپ پہ پڑی اور وہ روتے ہوئے ان سے لپٹ گئی۔۔۔۔ انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔اور افرحہ کو دیکھ کے مسکرائے ہولے سے ہاتھ اُٹھا کے اس کے سر پر رکھا ۔۔۔افرحہ نے سر اُٹھا کے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ مم میری۔۔۔ گُڑیا۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ ہمت مت۔۔۔ ہارنا ۔۔ میں ہمیشہ ۔۔تمم تمہارے ۔۔ساتھ ہوں ۔۔۔۔ اور میرے جانے۔۔۔۔۔ کے بعد۔۔۔۔زززیادہ مت رونا۔۔۔۔ مم مجھے تکلیف ہو گی۔۔۔ اپنا بہت خخ خیال رکھنا ۔۔۔۔۔۔ ایسا مت کہیں بابا میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گی آپ کے علاوہ میرا ہے ہی کون پلیز مجھے چھوڑ کے مت جائیں یا یا پھر مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں مجھے اکیلے اس دنیا میں نہیں رہنا ۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے ان کے سینے سے لگی بول رہی تھی۔۔۔۔ تتم اکیلی ۔۔۔۔۔نہیں ہو گی بیٹا ۔۔۔اللّٰہ ہے ۔۔۔۔نا تمہارے سس ساتھ۔۔۔ وہ کبھی تمہیں اااکیلا نہیں چچ چھوڑے گا ۔۔۔۔۔۔ مم مراد صاحب آآئے ہہہ ہیں؟؟؟؟ وہ مشکل سے سانس لیتے بول رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ججج جی بابا آئے ہیں وہ باہر ہی ہیں ۔۔۔۔۔ وہ ہچکیاں بھرتے بتا رہی تھی۔۔۔ انہیں اندر ۔۔۔بھیجو مُجھے ۔۔۔۔۔ان سے بب بات کرنی ہے ۔۔۔۔ ججی جی بابا ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔۔ بیٹا کیسی طبیعت ہے ان کی ؟؟ وہ باہر آئی تو مراد صاحب پوچھنے لگے۔۔۔۔۔۔ وہ وہ ٹھیک نہیں ہیں انکل وہ آپ کو بُلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے بتانے لگی۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔وہ سر ہلاتے اندر بڑھ گئے۔۔۔۔ ساوی نے اسے خود سے لگا لیا جو مسلسل رو رہی تھی اور اس کی آنکھیں بلکل سُرخ تھیں۔ مراد صاحب جب اندر داخل ہوئے تو انہوں نے سر کے اشارے سے اُنہیں پاس بلایا ۔۔۔ وہ چلتے ہوئے ان کے پاس رکھے سٹول پر بیٹھ گئے۔۔۔۔ میری بب بیٹی بہت معصوم ہے۔۔۔۔ اسے اس دنیا کی چالاکیوں کا پتہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ میرے علاوہ اس کا ۔۔۔۔۔اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔میرے جانے کے بعد اس ۔۔۔۔۔۔کا خیال رکھیے گا ۔۔۔ میں نے اس کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت جائداد چھوڑی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔۔ مگر میں اسے۔۔۔۔۔۔۔ اکیلا نہیں۔۔۔۔ چھوڑ سکتا اگر آپ کو۔۔۔۔۔۔ اعتراض نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔تو آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیے گا اپنے گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔میں اور پھر کسی۔۔۔۔۔۔۔ اچھے لڑکے سے اس کی شادی کر ۔۔۔۔۔۔۔دیجیے گا مجھے خدا ۔۔۔۔۔۔۔۔کے بعد صرف آپ پر بھروسہ ۔۔۔۔۔۔۔ہے میرا بھروسہ۔۔۔۔۔ مت توڑیے گا۔۔۔۔۔ میں آپ کے علاوہ۔۔۔۔۔۔ کسی اور پہ ۔۔۔۔۔بھروسہ۔۔۔۔۔ نہیں کر سکتا میں جانتا ہوں وہ آپ کو ساوی ۔۔۔۔۔کی طرح ہی ۔۔۔۔۔عزیز ہے کاش خدا۔۔۔۔۔۔ مجھے اتنی۔۔۔۔۔۔ مہلت دے دیتا ۔۔۔۔۔تو میں خود اس کی شادی کروا ۔۔۔۔۔۔کے سکون سے مر سکتا ۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔جو قسمت میں لکھا ۔۔۔۔ہو وہ کیسے ۔۔۔۔۔۔ٹل سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ یہ آخری احسان ۔۔۔۔۔۔مجھ پر کر دیں۔۔۔۔۔۔ تا کہ میں سکون ۔۔۔۔سے مر سکوں ۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل سانس لیتے اٹک آٹک کر بولے۔۔۔ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں افرحہ مُجھے اپنی گُڑیا کی طرح ہی عزیز ہے اور آپ فکر مت کریں میں آپ کو کُچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ مراد صاحب تسلی دیتے ہوئے بولے۔۔۔ نہیں میرا آخری وقت۔۔۔۔۔ آگیا ہے ۔۔۔۔آپ مجھ سے ۔۔۔۔وعدہ کریں ۔۔۔۔ وہ منت کرتے ہوئے بولے۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں افرحہ کا بہت خیال رکھوں گا اپنی بیٹی کی طرح اور اسے اعلٰی تعلیم بھی دلواوں گا اچھی جگہ اس کی شادی بھی کروں گا ۔۔۔۔ آپ بلکل بے فکر رہیں ۔۔۔۔۔ مراد صاحب نے وعدہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اور مراد صاحب کی حامی پہ انہوں نے سکون سے آنکھیں موند لیں ان کے چہرے پہ سکون چھایا ہوا تھا جیسے وہ ہر فکر سے آزاد ہو گئے ہوں ۔۔۔۔۔۔ مراد صاحب کو کُچھ انہونی کا کھٹکا ہوا قہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلانے گئے ۔۔۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد ان کی موت کی تصدیق کر دی ۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کو محفوظ ہاھوں میں سونپ کر سکون سے موت کی آغوش میں سو گئے تھے۔۔۔۔۔ افرحہ جو ڈاکٹرز کو اندر جاتے دیکھ رہی تھی مراد صاحب کے باہر آنے پر ان کی طرف بڑھی۔۔۔ انکل انکل بابا ٹھیک ہیں نہ آپ کُچھ بولتے کیوں نہیں۔۔۔۔ وہ ان سے پوچھتے ہزیانی انداز میں چلائی۔۔۔۔ ہمت کرو بیٹا ۔۔۔۔ جانے والوں کے لیے دعا کرتے ہیں ہمارے رونے سے ان کو تکلیف ہوتی ہے اپنے بابا کے لیے دعا کرو بیٹا وہ اب نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔ وہ اسکی حالت دیکھتے بمشکل بولے۔۔۔ جبکہ ان کی بات سن کے افرحہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔۔ اور آخری آواز جو اس نے سُنی وہ ساوی کی تھی جو اس کا سر اپنی گود میں رکھے اسے پکار رہی تھی۔۔۔۔۔اور اس کے بعد وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی۔۔۔۔۔

   0
0 Comments